Saturday, November 24, 2012

My article on Bhagat Singh


بھگت سنگھ چوک


طارق بھٹی



گذشتہ کچھ دنوں سے ہمارے ہاں ایک بحث چل رہی ہے اور حب الوطنی پر اجارہ داری کا دعوی کرنے والے دانشور یہ طے نہیں کر پا رہے کہ ۲۸ ستمبر ۱۹۰۷کو پنجاب کی ایک تحصیل جڑانوالہ کے چک نمبر ۱۰۵ میں کِشن سنگھ کے گھر پیدا ہونے والا ایک انقلابی جو اپنے وطن کو غلامی کی زنجیروں سے آذاد کروانے کی جدوجہد میں دیوانہ وار لڑتا رہا ، قیدو بند کی صعو بتیں جھیلتا رہا، انگریز سرکار کے قید خانوں میں 
مشقت کاٹتارہا اسے پہچا نا جائے یا آنکھیں موند لی جائیں۔ایک ایسا انقلابی جس نے اپنے وطن کی آذادی کے لئے قید میں ہوتے ہوئے بھی ایک سو سولہ دن کی بھوک ہڑتال کی۔ اور برصغیر کی سیاسی جدوجہد کی تاریخ میں جس کا نام سنہرے حروف سے لکھا گیا ۔فکری مغا لطوں کے پرو رد ہ د انشور مخمصے میں ہیں کہ مٹی سے محبت کا جرم کرنے والے اس انقلابی پر فخر کیا جائے یا اسے اپنا ماننے سے انکار کر دیا جائے۔ بھگت سنگھ بر صغیر کی ا نقلابی تاریخ کا ایک انو کھا کردار ہے جو وطن کی آذادی کے لئے لڑتے لڑتے محض ۲۳ سال کی عمر میں پھانسی پر جھول گیا اور اس کے ہم وطن اپنے قابلِ فخر سپوت کو اسکی ناگہانی موت کے ۸۲ سال بعد بھی اپنا بیٹا ماننے سے انکاری ہیں۔ سعادت حسن منٹو کا شہرہ آفاق افسانہ ’’ ٹوبہ ٹیک سنگھ ‘‘ برصغیر کی تاریخ کے اسی جبر کا نوحہ ہے۔

حال ہی میں لاہور کے شادمان چوک کو بھگت سنگھ کے نام سے منسوب کیے جانے پر ایک خاص حلقے میں اضطراب اور بے چینی کی ناقا بلِ فہم لہر دوڑ گئی ہے اور وہ لائل پور کی تحصیل جڑانوالہ کے ایک گاؤں میں پیدا ہونے والے جدوجہد آذادی کے اس عظیم ہیرو کو یہ عزت دینے کے لئے موزوں نہیں سمجھ رہے بلکہ یہاں تک کہ اسے آئین پاکستان پر حملے کے مترادف قرار دیتے ہیں۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ بھگت سنگھ ہمارا یعنی مسلمانوں کا ہیرو نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ سِکھ تھا، غیر مذہب تھا، اس لئے انگریز سرکار سے آذادی حاصل کرنے کے لئے دی گئی زندگی کی قربانی ھمارے لئے قابلِ ستائش نہیں۔

سوال یہ ہے کہ آپ کس بنیاد پر یہ دعوی کرتے ہیں کہ بھگت سنگھ سکھ مذہب کا پیروکار تھا وہ تو خالصتاً انسانی قدروں پر یقین رکھنے والا ایک انقلابی سرخیل تھا۔ اس نے خود اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ میرا کسی بھی دھرم سے کوئی تعلق نہیں میں محض انسانیت کو ہی اپنا مذہب سمجھتا ہوں۔ وہ مارکس ، لینن اور اینگلز کے علاوہ آئر لینڈ کے انقلابی مصنفین کے خیالات سے متاثر تھا۔ محضِ سکھ گھرانے میں پیدا ہونے سے بھگت سنگھ سکھ نہیں بن جاتا۔اس نے شعوری طور پر مذہب کی بنیاد پر اپنی شناخت کو اپنی زندگی میں ہی رد کر دیا تھا۔ لہذا مذہبی درجہ بندی کی بنیاد پر اسے دیس نکالا دینا تاریخی طور پر درست نہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ شناخت کا سب سے قدیم حوالہ مذہب نہیں زبان اور جغرافیہ ہوا کرتا ہے۔ کسی ایک خطے میں بسنے والے اور ایک زبان بولنے والے مختلف العقائد افراد اسی کو ہی اپنا وطن قرار دینے کا حق رکھتے ہیں۔ اگر بھگت سنگھ پنجاب کا سپوت نہیں تو پھر سر گنگا رام اور دیال سنگھ کالج کے بانی کو بھی لاہور کی تاریخ سے حذف کیا جائے۔ اور سائمن کمیشن کی مخالفت کرنے والے لالہ لاجپت رائے کو بھی کسی دوسرے دیس میں منتقل کرنے کی تاریخی کو شش کی جائے۔ اور اگر ہو سکے تو گلاب دیوی ہسپتال کو بھی مریض اور معالجوں سمیت لاہور سے نکال باہر کیا جائے۔ اس سے بڑی ذہنی اور فکری مفلسی اور کیا ہو گی کہ ہم اپنے ہی قابلِ فخر بچوں کو اپنا ماننے کے لئے تیار نہیں۔ کبھی دھرم کے نام پر اور کبھی فرقے کے نام پر ۔ کبھی بھگت سنگھ اور کبھی ڈاکٹر عبدالسلام۔

بھگت سنگھ کی مخالفت میں فکری کلابازیاں لگانے والوں میں سے کتنوں کو معلوم ہے کہ یہ وہی بھگت سنگھ ہے جس کی سیاسی جدوجہد کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناح نے ۱۲ ستمبر ۱۹۲۹ کو مرکزی قانون ساز اسمبلی میں اپنی تقریر میں کہا ’’جو شخص بھوک ہڑتال کرتا ہے وہ اپنے مقصد اور نظریے کی سچائی پر ایمان رکھتا ہے۔ اخلاقی بلندی کے بغیر کوئی شخص بھوک ہڑتال نہیں کر سکتا اس کا احتجاج انصاف کے اس نا قص نظام کے خلاف ہے۔ ‘‘ قائد اعظم نے اسمبلی کے اندر اور باہر بھگت سنگھ اور ساتھی قیدیوں کے ساتھ لاہور جیل میں روا رکھے جانے والے وحشیانہ سلوک کے خلاف آواز بلند کی۔ اور ان کے ساتھ بہتر سلوک کا مطالبہ کیا۔ ۱۹۲۹ کا وہ آرڈنینس جس کے تحت بھگت سنگھ اور جدوجہد آذادی کے دیگر راہنماؤ ں پر مقدمات چلائے گئے، قائد اعظم کی طرف سے اس کی قانونی حیثیت پر کی گئی تنقید تاریخ کا حصہ ہے۔

بھگت سنگھ بر صغیر کی آذادی کی جدو جہد میں جراّت و ہمت کا استعارہ تھا۔ آذادی کا خواب آنکھوں میں سجانے والے سبھی جانباز اس کی دیو مالائی بہادری اوروطن سے والہانہ محبت کی بدولت اس کی زندگی سے اپنے آذادی کے جذبوں کومہمیز کرتے تھے۔ لاہور سازش کیس کے دوران اس کی تقاریر اور نظریات نے برصغیر کے نوجوانوں میں انقلابی روح پھونکنے میں اہم کردار ادا کیا۔ بھگت سنگھ سکھ، مسلم یا ہندو نہیں تھا وہ ایک انقلابی تھا۔ اسکا کوئی دھرم نہیں تھا وہ انسانی عظمت اور برابری کی جنگ لڑ رہا تھا۔ اسکا اور کوئی ایجنڈا نہیں تھا وہ تو بس خود رو پودے کی طرح اگا اور غلام باغ کی سبھی شاخوں پر اپنا خوشبو رنگ لہو نچھاور کر کے تختہ دار پر چڑھ گیا۔سولیوں اور صلیبوں کوایسے ہی سورماؤں کی بدولت عظمت نصیب ہوتی ہے۔

بھگت سنگھ ایک عاشق اور انقلابی تھا اس نے اپنے آخری خط میں لکھا ’’عاشق، شاعر اور پاگل ایک ہی مٹی کے بنے ہوتے ہیں ‘‘ ۔’’ میں ایک جنگ میں لڑتے ہوئے گرفتار ہواہوں، پھانسی کا تختہ میری منزل نہیں ہو سکتا مجھے توپ کی نالی میں ڈال کر اڑا دیا جانا چاہے‘‘ ۔
زنداں میں بھی شورش نہ گئی اپنے جنوں کی
اب سنگ مداوا ہے اس آشفتہ سری کا
وہ ایک جفاکش ، محنتی ، باشعور اور بہادر انقلابی تھا جس نے کھلے میدانوں میں دشمن کا مقابلہ کیا۔ وہ ایک ایسی چنگاری تھا جوبہت جلد شعلہ بن کے سارے دیس کی تاریکی کو روشنی میں تبدیل کر گیا۔

۲۳ مارچ ۱۹۳۱ کی اداس شام انگریز سامراج کے نظامِ عدل کے اعزازی مجسٹریٹ نواب محمد احمد خان قصوری نے بھگت سنگھ کی پھانسی کے پروانے پر دستخط کیے (بھٹو صاحب کی پھانسی بھی اسی قصوری خاندان کے سبب ہوئی مگر اسے محض ایک اتفاق ہی سمجھا جائے)

انگریز سرکا ر کے نظام عدل کے تابع اس وقت کی عدالتوں نے بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کو صفائی کا موقع دےئے بغیر پھانسی کے گھاٹ اتار دیا۔ یہاں تک کہ ان کے گھر والوں کو بھی ان سے نہیں ملنے دیا گیا۔ قیدیوں سے ان کی آخری خواہش تک نہیں پوچھی گئی، انہیں کسی بھی مذہب کے تحت تجہیزو تکفین تک کی اجازت نہیں دی گئی۔ لاہور جیل کی عقبی دیوار توڑ کر بھگت سنگھ کی لاش کو باہر نکالا گیا اور بہیمانہ درندگی کے ساتھ اس کی لاش کے ٹکڑے کر کے مٹی کے تیل میں ڈال کر جلا دیا گیا۔
انگریز سامراج اس انقلابی کی لاش سے بھی خو فزدہ تھا۔ اس وقت کے وائسرائے ہند لارڈ اِرون نے برطانوی وزیر اعظم رمزے میکڈونلڈ کے کہنے پر پنجاب کے اس سورمے کی راکھ کو بھی دریائے ستلج کے پانیوں میں بہا دیا۔

Friday, November 23, 2012

My article on Karachi fire incident


۔عام لوگ۔۔

طارق بھٹی


کر ا چی کے علا قے بلد یہ ٹا ون میں فیکٹر ی میں کا م کر نے وا لے تین سو محنت کشو ں اور ہنر مند وں کی اندو ہناک ھلاکت کے دل دھلا دینے والے مناظر اور حا لیہ با ر شو ں کے نتیجے میں ہو نے والی سیلا بی تبا ہی کے دوران ہونے والے جا نی نقصا ن کا طبقا تی پہلو اس کو مزید کر بنا ک بنا دیتا ہے۔ بلا شبہ جا نی نقصان خو ا ہ کہیں بھی ہو، کسی بھی رنگ ، نسل ، طبقے ، مذہب یا عقیدہ سے تعلق رکھنے والے لو گو ں کا ہو اپنی انتہا ٰ ئے کا ر میں اداسی اور دکھ کے تا ثرات چھو ڑ جا تا ہے۔
مگر تا ریخ کا یہ عجیب جبر ہے کہ روز ازل سے سبھی آ فتیں اور حادثات معا شرے کے نچلے اور محنت کش طبقات کو 
ہی اپنا نوا لہ بنا تے ہیں۔ اور بقو ل شا عر:

محسن غریب لوگ بھی تنکوں کے ڈھیر ہیں
مٹی میں دب گئے کبھی پانی میں بہہ گئے

تمام سما جی ، معاشرتی، معاشی اور قا نونی نا ہمواریاں بتدریج پسے ہو ئے طبقات کے استحصال کا با عث بنتی ہیں۔
 بے چارے غر یب اور محروم لوگ پر خطر اور سستی جگہوں پر غیر معیاری عمارتیں تعمیرکر کے ان میں رہائش اختیار کر لیتے ہیں اور زلزلے جیسی قدرتی آفت ان کے لئے لقمہ اجل ثابت ہو تی ہے۔ دریاؤں کے قدرتی بہاؤ والے راستوں میں آباد ہونے والی ہاریوں اور مزدوروں کی بستیاں ہر سال سیلاب اور برسات میں تباہی کا شکار ہو جاتی ہیں۔
مذہبی نفرت اور سیاسی اشتعال کے سبب ہونے والے پر تشدد واقعات انہی بے نام اور بے چہرہ لوگوں کا خون بہانے کا سبب بنتے ہیں۔ ریل پٹڑی سے اترے یا بس کسی گہری کھائی میں گرے، کو ئی خستہ عمارت منہدم ہو یا کو ئی پل زمین بوس ، خون ہمیشہ انہی خاک نشینو ں کا بہتا ہے۔ تمام بڑی تحریکیں اور خونی انقلاب انہی مظلو م اور محروم لوگوں کی سروں کی کھوپڑیوں پر استوار ہوتے ہیں۔ عا لمی جنگیں ہوں یا مقامی لشکر کشی کے واقعات ، یہ زمیں ذاد ہر دو اطراف سے ظلم و تشدد اور جبر کا نشانہ بنتے ہیں۔

نجم حسین سید نے اپنی نظم میں کہا تھا عام دناں دے ناں نہیں ہوندے ، سچ ہی کہا تھا کہ عام لوگ بالکل عام دنوں
 کی طرح ایک ایک کر کے کیلنڈر سے گرتے رہتے ہیں، خاص دنوں کے محل اور مزاروں کے لئے مٹی، گارے ، سیمنٹ اور بجری کا انتظام کرتے کرتے عام دن یو نہی تاریخ کے کوڑادان میں گرتے رہتے ہیں۔
اور تکلیف دہ سچ یہ ہے کہ عام لوگ خاص لوگوں کی اجارہ داریوں کو دوام بخشنے کے مکروہ کھیل میں ایندھن کے طور پر استعمال ہوتے رہتے ہیں۔ اورخاص لوگ عام لوگوں کی موت پر محض اخباری بیان اور نمائشی تصویریں چپھوا کر پھر اسی سماجی تانے بانے کی مضبوطی کو قائم دائم رکھنے کے کام میں مصروف ہو جاتے ہیں جسکی بدولت وہ اور ان کے چشم و چراغ خاص اور بے و سا ئل انسانوں کا انبوہ ہمیشہ کے لئے اسی معاشی اور معاشرتی پستی اور دلدل کا ازلی مکین رہنے پر مجبور ہو جاتاہے۔

سوال یہ ہے کہ ہمارے خاص لوگ ہم عام لوگوں کو کم سے کم آبرومندانہ زندگی گزارنے کے قابل بنانے کے لئے کیا ٹھوس اقدام کر رہے ہیں۔ یا ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت سبھی اپنی اپنی مسند اور کرسی بچانے کے لئے قیدیوں کی چیخوں سے بے خبر ان کی زنجیروں کو مضبوط کئے جا رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ سبھی معاشروں میں معاشی نا ہمواری اور طبقاتی اونچ نیچ کسی نہ کسی شکل میں موجود تھی اور آج بھی ہے۔ مگر مہذب اور ترقی یافتہ اقوام نے کم سے کم معیار زندگی کے حصول کو یقینی بنانے کے لئے بہت سارے ریاستی اور انتظامی وسائل صرف کر کے معاشروں کو متعفن ہونے سے بچایا ہوا ہے۔

ہمارے ارباب اختیار خواہ کسی بھی سیاسی جماعت یا انتظامی عہدے پر بیٹھے ہوں یہاں کی بے چہرہ اور بے نام مخلوق کی زندگیوں سے دکھ، درد، بے یقینی اور عدم تحفظ کے لا متناہی سلسلوں کو ختم کرنے کے لئے کوئی دور رس اور قابل عمل اصلاحات متعارف نہیں کراتے۔ایسے میں ہم، یعنی عام لوگوں کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ اس طرح کے حادثات کی روک تھام کے لئے حکومتی اکابرین پر اثر انداز ہونے کی جامع کوششیں کر یں اور مرنے والوں کے لئے صرف بخشش کی دعا مانگ کر خود کو بری الذمہ نہ سمجھ لیا کریں۔ زندہ معاشرے میں افراد کی ذمہ داری یہی پر ختم نہیں ہو جاتی بلکہ بے حسی کے اس سناٹے کو توڑنے کے لئے ایک لمبی اور زوردار چیخ کا مطالبہ کرتی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ سماجی انصاف کے لئے جدو جہد کرنے والے ادارے اور افراد اس حادثے کے شکار معصوم محنت کشوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے ملکی سطح پر ایسی انتظامی اور قانونی تبدیلیاں لے کر آئیں کہ جن پر عمل پیرا ہو کر مستقبل میں اس طرح کے کسی بھی حادثے کو روکا جا سکے اور خدانخواستہ حادثہ ہونے کی صورت میں اس سے موثر طور پا نبھٹا جا سکے اور اگر ان سینکڑوں قیمتی جانوں کا ذیاں بھی ہمیں ہوش دلانے میں ناکام رہا تو اس سے ذیادہ بد قسمتی کی کوئی بات نہیں۔

Monday, November 19, 2012

My article on blasphemy

آ گے بڑھو مسا فر و

طارق بھٹی

زندگی ہمیشہ تلا طم خیز ندی کی طرح بہاؤ میں ر ہتی ہے۔ وطن عزیز کا سیاسی تالاب بھی ہمیشہ متلاطم لہروں کی زد میں رہتا ہے۔ لیکن بات اگر صرف سیاست تک محدود ہو تو اسے ایک صحت مند اشا ر یہ سمجھ لیا جائے۔ پشیما نی اس وقت لا حق ہوتی ہے جب ہم اپنی معاشرت کا شیرازہ بکھر تا دیکھتے ہیں۔ دکھ کے گھا ؤ اس وقت محسوس ہوتے ہیں جب سماج کا تناور درخت فکری دیمک کی ذد میں نظر آ تا ہے۔ شعو
ر کیْ سولیں اس وقت بْبول بن کر چھبنے لگتی ہیں جب راہبر و راہذن کا فرق با لکل دھندلا جا تا ہے۔ معا شرتی تالاب اْس وقت متعفن ہونے لگتا ہے جب اختلا ف رائے گالی کا ہم معنی بن جا ئے اور وسیع المشر بیت کو دیس نکالا مل جا ئے ۔
سچ پر کھوکھلی اجارہ داری کا دعوی کرنے والوں کو جب یہ بات سمجھ نہ آئے کہ حیات اپنی تخلیق کے اولین مدارج سے آج تک تنو ع اور رنگا رنگی کے سبب ہی خو بصورت رہی ہے تو دم گھٹنے لگتا ہے۔ کو ئی کیسے بتلائے کہ یک رنگی فطرت کے اصولوں کی نفی ہے۔ اسی لئے تو تتلیاں، جگنو، کبوتر، کو نپلیں، پھول، پتیاں، درخت، سبزہ، دھوپ، ندی، جنگل، بیلے، صحرا، بہار اور پت جھڑ سب جدا جدا رنگ لے کر ہستی کے نگار خانے کو مذین کئے ہوئے ہیں۔
کیا اس بات سے انکار ممکن ہے کہ مطلق سچا ئی کی کھوج میں آدم زاد بے شمار فکری پڑاؤ عبور کر چکا ۔ اور کا ئنات ہنوز ایک پر اسرار بوڑھیا کی مانند دور کسی جزیرے میں خیمہ زن ہے۔ عقائد ، نظریات اور افکارکے ریتلے نقش بے یقینی، تجسس اور واہموں کی ہواؤں سے بنتے بگڑتے رہے ہیں۔ زما نہ ، آگے بڑھو مسافرو کی صدا لگاتا ہمیشہ سے بہتا آیاہے۔ زمین کی گود کو رنگوں سے محروم کرنے والے سبھی قافلے ابدیت کی کائی نے بانجھ کر دےئے۔ منزل پر صرف وہی کاروان پہنچتے ہیں جو یہ جانتے ہوں کہ راستہ صرف آگے کو ہے۔ دیو مالائی داستانوں میں پیچھے مڑ کر دیکھنے والے کردار پتھر ہو جاتے ہیں بالکل اسی طرح جب کسی معاشرے کی اجتماعی آنکھیں پیشانی کی بجائے پشت پر پیوست کر دی جائیں تو آگے کا سفر دراصل پیچھے کا راستہ بن جاتا ہے اور ایسے میں شاعر صدا لگاتا ہے:
ہمارے پاؤں الٹے تھے، فقط چلنے سے کیا ہوتا
بہت آگے گئے لیکن، بہت پیچھے نکل آئے

اس پس منظر میں پا کستان کے عقل کل ، پست قداور بلند آھنگ ، تنخواہ دار دانشوروں سے اپیل ہے کہ تاریخ کی جدلیات سے طالب علمانہ وابستگی کو اپنا شعاربنائیں اور وہ فکری مغالطے جو کسی قافلے کو منزل پر پہنچانے کی راہ میں رکاوٹ ہوں انہیں اپنے افکار سے نکال باہر کریں۔ کیا یہ ایک حقیقت نہیں کہ یہ زمین چھ ارب ۸۰ کروڑ انسانوں کا مسکن ہے اور اس کے مکین سینکڑوں مختلف مذہبی اور فلسفیانہ عقائد سے وابستہ ہیں۔ دنیا کی کل آبادی کا تیتیس فی صد یعنی ۲ ارب ایک کروڑ افراد عیسا ئیت کے پیروکار ہیں۔ اور ۲۱ فی صد یعنی ایک ارب پانچ کروڑ مذہب اسلام کے ماننے والے ہیں۔ جبکہ ایک تحقیق کے مطابق ایک ارب افراد ایسے ہیں جو کسی بھی مذہب کے ساتھ فکری وابستگی کا دعوی نہیں کرتے اور یہ کل آبادی کا ۱۵ فی صد ہیں۔ ۹۰ کروڑ افراد ہندومت کے پیروکار ہیں۔ ۳۰ کروڑ چھہتر لاکھ بدھ مت کو اپنا روحانی عقیدہ گردانتے ہیں جبکہ ۳۰ کروڑچھ لاکھ افراد روحانیت کو ہی اپنا مذہب قرار دیتے ہیں۔ افریقہ کے مختلف قبائل جن کی تعداد ۱۰ کروڑ اور ۱۰ لاکھ کے قریب ہے مختلف مذہبی روایات کے تحت زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ایک کروڑ پینتالیس لاکھ خود کو سیکولر کہلوانا پسند کرتے ہیں۔ ایک کروڑبارہ لاکھ یہودیت کے ماننے والے ہیں۔ بیتالیس لاکھ جین مت مذہب سے جڑے ہوئے ہیں۔ پچیس لاکھ زرتشتی، چالیس لاکھ شنتو مذہب کے پیروکار جبکہ چالیس کروڑکیمونسٹ چینی با شندے اس کے علاوہ ہیں۔
کیا اتنے مختلف العقائد اربوں افراد اختلاف رائے کا شکار نہیں ہوں گے۔ کیا اسی تنوع سے انسانی تہذیب و تمدن کو جلا نہیں ملی؟
کیا اس باغیچے کے سبھی پھولوں کو یک رنگ کر دیا جائے۔ کیا صوفیا اور اہل نظر ،یہ نہیں کہہ گئے کہ سچ کو ئی منزل نہیں، بلکہ صرف راستہ ہے۔ آگے بڑھو مسافرو کہ زمانہ بوڑھے فقیر کی صدا ہے جس کے نہ سننے والے ہنوط جسموں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ جن کی صرف سانسیں چلتی ہیں۔اور ضروری نہیں کہ زندگی کی رنگا رنگی بھی ان کی پلکوں پہ اترتی ہو۔ نفرت کا بیج بو کر الفت کی فصل کے انتظار میں بیٹھنے والے کسی منزل کے نامہ بر نہیں ہو سکتے۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے پالیسی ساز ہماری معاشرت میں تنگ نظری، تشدد ، عدم برداشت ا ور مذہبی جنونیت کو دوام بخشنے کی بجائے محسن انسانیت کے کردار کی بات کریں۔ یہ تیرگی چھٹے گی تو جلاؤ اور گھیراؤ سے نہیں اْس مصور کے حسین شاہکار ﷺ کی باتیں کرنے سے چھٹے گی۔

ْتنک مزاجوں،
لباس نا آشنا رواجوں کی سلطنت میں
وہ صاحب جامہ و ردا تھا
وہ نرم لہجے میں بولتا تھا

ہذیان بکنے والوں سے انتقام لینے کے لئے حواس کھو دینا کہاں کی دانش مندی ہے اور آسمان پر تھوکنے والا اگر یہ سمجھے کہ تھوک واپس اس کے منہ پر نہیں گرے گی تو ایسے شخص پر صرف ترس ہی کھایا جا سکتا ہے۔نیم خواندہ پیش امام جن کی وسعت نظر حجرہ کی دیوار تک بھی نہیں ،وہ اقبال کے اس تصور کی کیا آبیاری کریں گے جو یہ کہتا ہے کہ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔
تا ہم مختلف مذاہب اور عقائد کے ما بین صحت مند فکری مکالمے کو حق اور باطل کی رزم گاہ سمجھنے کی بجائے اسے انسانی تمدن کی ترقی کا ایک اہم ذریعہ سمجھا جانا چاہئے۔ اور آذادی اظہار کے منہ زور گھوڑے کو بقائے باہمی کے زریں اصولوں کے تابع کیا جانا چاہئے کیونکہ چھڑی گھمانے والے کی آذادی کسی دوسرے کی ناک تک پہنچنے سے پہلے ختم ہوجاتی ہے۔ بصورت دیگرکْشت و خون کی ہولی ہزراروں سالوں کے اجتماعی تہذیبی ورثے کو تاراج کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگائے گی۔۔

My article on Malala

اس شہر میں خواب مت دیکھو

طارق بھٹی


جًون آف آرک پندرھویں صدی کی دوسری دہائی میں مشرقی فرانس کے ایک کسان کے گھر پیدا ہوئی۔ وہ بچیپن سے ہی
 بہادری، شجاعت اور قربانی کے جذبات سے معمور تھی۔ وہ بشارتوں پر یقین رکھتی تھی۔ وہ ھاتف غیب سے آنے والے امید افزا پیغامات نہ صرف سنتی تھی بلکہ ان پر یقین بھی کرتی تھی۔ وہ اپنے وطن کو غلامی سے نجات دلانا چاہتی تھی۔

 وہ شکستہ دل اور شکستہ پا فوجی دستوں میں فتح مندی  کی نئی روح پھونکنا چاہتی تھی۔ فرانس کی خوشھالی اور آذادی کے خواب اسے ستاتے تھے۔ جًون آف آرک ابھی لڑکپن کی دہلیز سے جوانی کی شاہراہ کی طرف گامزن ہی ہوئی تھی کہ اس نے شاہ فرانس سے ملنے کا فیصلہ کیا۔ ۱۹ سالہ خوبرو دہقان ذادی کہ جس کی پرورش مشرقی فرانس کے ایک دیہاتی پس منظر میں ہوئی اور اس کے والدین سادہ اور خداترس زندگی بسر کر تے تھے۔ ایک دن شاہ فرانس کے دربار میں جا پہنچی اور کہنے لگی : مجھے لڑاکا فوجی دستوں کے ساتھ جنگ کے محاذ پر بھیجا جائے۔ میں اپنی مادر وطن کو فتح سے ہم کنار کرواؤں گی۔ پندرھویں صدی کے فرانس میں ایک انیس سالہ خوبرو لڑکی کا جنگی محاذ پر جانا اور مٹی کا قرض اتارنے کے جذبے سے لیس فوج کے جنگی دستے کی کمانڈ سمبھالنے کی آرزو بالکل ایک انہونی اور ناقابل یقین بات تھی۔ مگر چونکہ اس دہقان داذی کے جذبے سچے اور صادق تھے بادشاہ نے اسے جنگی دستے کی کمانڈر بنا کر اپنے وطن کا پرچم اس کے ہاتھ میں تھمایا اور فتح کی دعا کے ساتھ اسے محاذ پر روانہ کر دیا۔

فرانس کی سو سالہ جنگی تاریخ میں جًون آف آرک نے بہت سارے محاذوں پر سپہ سالار کے طور پر فتوحات حاصل کیں۔ یہ اس کی شجاعت اور بہادری کا صدقہ تھا کہ چارلس ہفتم کو فرانس کا تخت و تاج نصیب ہوا۔ شومئی قسمت کہ ایک معرکے کے دوران جًون آف آرک کو دشمن افواج نے محصور کر کے گرفتار کر لیا۔ انگریز سرکا ر کے زیر اثر چرچ نے اس پر مقدمہ چلایا اور اس پر باغی ، گمراہ اور ملحد ہونے کے الزامات لگائے گئے۔ اور پھر جیسا کہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے اس وقت کی عدلیہ کے منصفوں نے اسے فا حشہ ، باغی ، محلد اور بھٹکی ہوئی روح قرار دے کر زندہ جلانے کا حکم نامہ سنا دیا۔ اور فرانس کی وہ دوشیزاہ محض انیس سال کی عمر میں نا کردہ گناہوں کی پاداش میں ایک مصروف چوراہے کے بیچ ٹکٹکی پر باندھ کر زندہ جلا دی گئی۔ پادری منصفوں کی قربان گاہ کی بھینٹ چڑھنے کے ۲۵ سا ل بعد اس کا مقدمہ دبارہ کھو لا گیا ازسر نو تفتیش ہوئی ، مختلف صاحب رائے افراد نے دونوں طرف سے دلائل دیئے ، شہادتیں پیش کی گئیں اور بالاخر پوپ کالیکسٹس سوئم نے جًون آف آرک کو معصوم، ولی اور شہید قرار دے دیا۔ جًون آف آرک فرانس کے اجتماعی، تاریخی شعور کے سامنے ہمیشہ سے ایک بہت بڑا سوالیہ نشان بن کر زندہ رہی۔ ماہ و سال ، عشرے اور صدیا ں بیتتی گئیں یہاں تک کہ انیس سو بیس آگیا اور رومن کیتھو لک چرچ نے فرانس کے ماضی پر لگا یہ بد نما داغ دھونے کا فیصلہ کیا اور اسی باغی ، ملحد جًون آف آرک کو راہب کامل کا خطاب دے دیا گیا۔

تاریخ کی ستم ظریفی دیکھے کہ مشرقی فرانس کے ایک دیہات کی باغی لڑکی جسے اس قت کے صاحبان محراب و ممبر نے زندگی کی بیسویں بہار دیکھنا نصیب نہ ہونے دیاور چھ سو سال کے بعد وہی جبہ و دستار کے مالک مذہبی پنڈت اجتماعی تاریخی شعور کے ہاتھوں مجبو ر ہو کر اسے وقت کی ولی کامل، صوفی اور متبرک روح کا خطاب دینے پر مجبور ہو گئے۔

تاریخ کے ہاتھوں امر ہونے والی یہ لڑکی مجھے ملالہ جیسی لگتی ہے۔ملالہ کو بھی پندرھویں صدی کے مفلس ذہن کی بدبو دار منطق کا سامنا ہے۔ جن کے نزدیک باحیا ملالہ کی معصو م جستجو ئے علم ایک ناقابل معافی جرم ہے۔ وہ لڑکی ہو کر اپنا حق مانگتی ہے۔ اور نا جانے کس پاکیزہ لمحے اس نے باب شہر علم کا یہ فرمان اپنے دل کے نہاں خانے میں محفو ظ کر لیا۔ فرمایا: بولو ، تاکہ پہچا نے جاؤ: علم کی جستجو کا بے خوف اظہار اس کی پہچان بنا تو شب تاریک کی اولاد اس کی جان کے درپے ہو گئی اور بالاخر اسے فتنہ قرار دے کر قتل کا فتوی صادر کر دیا گیا۔ جان لیوا احکامات کی پیروی کرنے والے مومن مجاہد اسے سکول کی بس میں سے اپنی سہلیوں کے درمیان سے پہچاننے کے بعد اس کے دماغ پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں۔ ملالہ کے پیکر میں سب سے خوبصورت اور خطرناک چیز اسکا ذہن تھا، اس کی فکر تھی، اس کے خواب تھے، زمین کے ساتھ اس کی محبت تھی، وہ بہادری کی علامت اور امید کا استعارہ بن رہی تھی۔ اس کے لفظ سات سمندر پار تک منجمد پانیوں میں ارتعاش کا سبب بن رہے تھے، وہ مجسم خطرہ تھی، اس کا زندہ رہنا خطرناک نذیر قائم کر سکتا تھا لہذا اس پر قاتلانہ حملہ جائز ٹھہرا اور وہ ہنستی کھیلتی ملالہ اب زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا معالجوں کے زیر نگرانی سانسیں لے رہی ہے۔

ملالہ تیرے ہم وطن عجیب لوگ ہیں ، بلکہ بہت عجیب۔ ابھی انہوں نے کافی کچھ طے کرنا ہے۔ جمہوریت اور آمریت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے۔ ابھی دشمن اور دوست کی تعریف پر اتفاق نہیں ہوا۔ ابھی ہر کام میں سازش کی بو آتی ہے۔ ابھی ہما رے مستقبل کے خدوخال دھندلے ہیں۔ ابھی لفظ سیکو لر کے معنی پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔ ابھی لڑکیوں کے تعلیم حاصل کرنے کی منطق حل طلب ہے، ابھی اس سلطنت کے رواجوں میں عورت کی گواہی ادھوری ہے ، ابھی جہاد اور امریکی جنگ کے درمیان حائل خلیج پاٹنی ہے، ابھی فوجی اور غیر فوجی ادوار اور ان کے کارناموں کی حتمی فہرست تیار نہیں ہوئی۔ ابھی آئین سے غیر اسلامی شقیں خارج نہیں ہوئیں۔ ابھی اسمبلیاں غیر پارسا لوگوں کی اماج گاہ ہیں۔ ابھی عدالتیں کفر کے نظام کے تحت اسلامی قوانین کی تشریح کر رہی ہیں، ابھی ہندوستان کے لال قلعہ پر اسلامی جھنڈا لہرانا ہے۔ ابھی امر یکہ کے ساتھ ایک فیصلہ کن جنگ باقی ہے۔ ابھی یہود و ہنود کی سازشوں کے پردے بے نقاب ہونے ہیں، ابھی کالم نگاروں اور تجزیہ کاروں کا طرز استدلال حوس لقمہ تر کے زیر اثرہے۔ ابھی ڈرون حملے جاری ہیں، ابھی ملا عمر اور حکیم اللہ محسود کی عمل داری سارے پاکستان تک نہیں پھیلی۔ ابھی خلافت کا نظام رائج نہیں ہوا۔ ابھی تمہاری تعلیم کے مقابلے میں عالمی استعمار کے خلاف جنگ زیادہ اہم ہے۔

 ہم وحشتوں کے خریدار ہیں، روشنی ہمیں خیرہ کر دیتی ہے۔ ابھی تم کچھ دیر صبر کرو ،زمین ابھی بنجر ہے، ابھی تم شعور، آگاہی اور آذادی کے بیج اپنے ہاتھ میں تھامے رکھو ، ذرا دریا کو اپنا راستہ بدلنے دو، ذرا شبٍ تاریک کے سائے کو ڈھلنے دو ۔

اس شہر میں خواب مت دیکھو!
اس شہر میں پیار مت سوچو!
اور بھلا چاہو تو یہ آنکھیں
فصیلٍ شہر سے باہر گڑی
کھونٹی پہ لٹکا دو!
نئے فرمان میں یہ دوو ٹوک لکھا ہے
کہ آنے والے موسموں کے ضمن میں
فصل گل کی خواہش سے
بصارت مستور کی بے پردگی کا خدشہ ہے
اس شہر میں خواب مت دیکھو!
اس شہر میں پیار مت سوچو!
کہ کوتوالٍ شہر کے کھوجی تمہارے خواب کے رستے
تمہاری آنکھ تک جو پہنچے
تو بمعہ تعبیر رنگے ہاتھوں
تمہیں وہیں محصور کر لیں گے
میری جاں!
اس شہر میں خواب مت دیکھو!
اس شہر میں پیار مت سوچو!

خالق کائنات ملالہ کا مقد مہ تیری بارگاہ میں ہے اسے زندگی کی نعمت سے سرفراز رکھ اور امت شاہ لولاک پر اپنا کرم فرما جو تیرے نام پر تیرے نام لیواؤں کے خون کو باعث افتخار سمجھتے ہیں اور نہیں شرماتے ہیں۔