Friday, November 23, 2012

My article on Karachi fire incident


۔عام لوگ۔۔

طارق بھٹی


کر ا چی کے علا قے بلد یہ ٹا ون میں فیکٹر ی میں کا م کر نے وا لے تین سو محنت کشو ں اور ہنر مند وں کی اندو ہناک ھلاکت کے دل دھلا دینے والے مناظر اور حا لیہ با ر شو ں کے نتیجے میں ہو نے والی سیلا بی تبا ہی کے دوران ہونے والے جا نی نقصا ن کا طبقا تی پہلو اس کو مزید کر بنا ک بنا دیتا ہے۔ بلا شبہ جا نی نقصان خو ا ہ کہیں بھی ہو، کسی بھی رنگ ، نسل ، طبقے ، مذہب یا عقیدہ سے تعلق رکھنے والے لو گو ں کا ہو اپنی انتہا ٰ ئے کا ر میں اداسی اور دکھ کے تا ثرات چھو ڑ جا تا ہے۔
مگر تا ریخ کا یہ عجیب جبر ہے کہ روز ازل سے سبھی آ فتیں اور حادثات معا شرے کے نچلے اور محنت کش طبقات کو 
ہی اپنا نوا لہ بنا تے ہیں۔ اور بقو ل شا عر:

محسن غریب لوگ بھی تنکوں کے ڈھیر ہیں
مٹی میں دب گئے کبھی پانی میں بہہ گئے

تمام سما جی ، معاشرتی، معاشی اور قا نونی نا ہمواریاں بتدریج پسے ہو ئے طبقات کے استحصال کا با عث بنتی ہیں۔
 بے چارے غر یب اور محروم لوگ پر خطر اور سستی جگہوں پر غیر معیاری عمارتیں تعمیرکر کے ان میں رہائش اختیار کر لیتے ہیں اور زلزلے جیسی قدرتی آفت ان کے لئے لقمہ اجل ثابت ہو تی ہے۔ دریاؤں کے قدرتی بہاؤ والے راستوں میں آباد ہونے والی ہاریوں اور مزدوروں کی بستیاں ہر سال سیلاب اور برسات میں تباہی کا شکار ہو جاتی ہیں۔
مذہبی نفرت اور سیاسی اشتعال کے سبب ہونے والے پر تشدد واقعات انہی بے نام اور بے چہرہ لوگوں کا خون بہانے کا سبب بنتے ہیں۔ ریل پٹڑی سے اترے یا بس کسی گہری کھائی میں گرے، کو ئی خستہ عمارت منہدم ہو یا کو ئی پل زمین بوس ، خون ہمیشہ انہی خاک نشینو ں کا بہتا ہے۔ تمام بڑی تحریکیں اور خونی انقلاب انہی مظلو م اور محروم لوگوں کی سروں کی کھوپڑیوں پر استوار ہوتے ہیں۔ عا لمی جنگیں ہوں یا مقامی لشکر کشی کے واقعات ، یہ زمیں ذاد ہر دو اطراف سے ظلم و تشدد اور جبر کا نشانہ بنتے ہیں۔

نجم حسین سید نے اپنی نظم میں کہا تھا عام دناں دے ناں نہیں ہوندے ، سچ ہی کہا تھا کہ عام لوگ بالکل عام دنوں
 کی طرح ایک ایک کر کے کیلنڈر سے گرتے رہتے ہیں، خاص دنوں کے محل اور مزاروں کے لئے مٹی، گارے ، سیمنٹ اور بجری کا انتظام کرتے کرتے عام دن یو نہی تاریخ کے کوڑادان میں گرتے رہتے ہیں۔
اور تکلیف دہ سچ یہ ہے کہ عام لوگ خاص لوگوں کی اجارہ داریوں کو دوام بخشنے کے مکروہ کھیل میں ایندھن کے طور پر استعمال ہوتے رہتے ہیں۔ اورخاص لوگ عام لوگوں کی موت پر محض اخباری بیان اور نمائشی تصویریں چپھوا کر پھر اسی سماجی تانے بانے کی مضبوطی کو قائم دائم رکھنے کے کام میں مصروف ہو جاتے ہیں جسکی بدولت وہ اور ان کے چشم و چراغ خاص اور بے و سا ئل انسانوں کا انبوہ ہمیشہ کے لئے اسی معاشی اور معاشرتی پستی اور دلدل کا ازلی مکین رہنے پر مجبور ہو جاتاہے۔

سوال یہ ہے کہ ہمارے خاص لوگ ہم عام لوگوں کو کم سے کم آبرومندانہ زندگی گزارنے کے قابل بنانے کے لئے کیا ٹھوس اقدام کر رہے ہیں۔ یا ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت سبھی اپنی اپنی مسند اور کرسی بچانے کے لئے قیدیوں کی چیخوں سے بے خبر ان کی زنجیروں کو مضبوط کئے جا رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ سبھی معاشروں میں معاشی نا ہمواری اور طبقاتی اونچ نیچ کسی نہ کسی شکل میں موجود تھی اور آج بھی ہے۔ مگر مہذب اور ترقی یافتہ اقوام نے کم سے کم معیار زندگی کے حصول کو یقینی بنانے کے لئے بہت سارے ریاستی اور انتظامی وسائل صرف کر کے معاشروں کو متعفن ہونے سے بچایا ہوا ہے۔

ہمارے ارباب اختیار خواہ کسی بھی سیاسی جماعت یا انتظامی عہدے پر بیٹھے ہوں یہاں کی بے چہرہ اور بے نام مخلوق کی زندگیوں سے دکھ، درد، بے یقینی اور عدم تحفظ کے لا متناہی سلسلوں کو ختم کرنے کے لئے کوئی دور رس اور قابل عمل اصلاحات متعارف نہیں کراتے۔ایسے میں ہم، یعنی عام لوگوں کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ اس طرح کے حادثات کی روک تھام کے لئے حکومتی اکابرین پر اثر انداز ہونے کی جامع کوششیں کر یں اور مرنے والوں کے لئے صرف بخشش کی دعا مانگ کر خود کو بری الذمہ نہ سمجھ لیا کریں۔ زندہ معاشرے میں افراد کی ذمہ داری یہی پر ختم نہیں ہو جاتی بلکہ بے حسی کے اس سناٹے کو توڑنے کے لئے ایک لمبی اور زوردار چیخ کا مطالبہ کرتی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ سماجی انصاف کے لئے جدو جہد کرنے والے ادارے اور افراد اس حادثے کے شکار معصوم محنت کشوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے ملکی سطح پر ایسی انتظامی اور قانونی تبدیلیاں لے کر آئیں کہ جن پر عمل پیرا ہو کر مستقبل میں اس طرح کے کسی بھی حادثے کو روکا جا سکے اور خدانخواستہ حادثہ ہونے کی صورت میں اس سے موثر طور پا نبھٹا جا سکے اور اگر ان سینکڑوں قیمتی جانوں کا ذیاں بھی ہمیں ہوش دلانے میں ناکام رہا تو اس سے ذیادہ بد قسمتی کی کوئی بات نہیں۔

No comments:

Post a Comment