Monday, November 19, 2012

My article on Malala

اس شہر میں خواب مت دیکھو

طارق بھٹی


جًون آف آرک پندرھویں صدی کی دوسری دہائی میں مشرقی فرانس کے ایک کسان کے گھر پیدا ہوئی۔ وہ بچیپن سے ہی
 بہادری، شجاعت اور قربانی کے جذبات سے معمور تھی۔ وہ بشارتوں پر یقین رکھتی تھی۔ وہ ھاتف غیب سے آنے والے امید افزا پیغامات نہ صرف سنتی تھی بلکہ ان پر یقین بھی کرتی تھی۔ وہ اپنے وطن کو غلامی سے نجات دلانا چاہتی تھی۔

 وہ شکستہ دل اور شکستہ پا فوجی دستوں میں فتح مندی  کی نئی روح پھونکنا چاہتی تھی۔ فرانس کی خوشھالی اور آذادی کے خواب اسے ستاتے تھے۔ جًون آف آرک ابھی لڑکپن کی دہلیز سے جوانی کی شاہراہ کی طرف گامزن ہی ہوئی تھی کہ اس نے شاہ فرانس سے ملنے کا فیصلہ کیا۔ ۱۹ سالہ خوبرو دہقان ذادی کہ جس کی پرورش مشرقی فرانس کے ایک دیہاتی پس منظر میں ہوئی اور اس کے والدین سادہ اور خداترس زندگی بسر کر تے تھے۔ ایک دن شاہ فرانس کے دربار میں جا پہنچی اور کہنے لگی : مجھے لڑاکا فوجی دستوں کے ساتھ جنگ کے محاذ پر بھیجا جائے۔ میں اپنی مادر وطن کو فتح سے ہم کنار کرواؤں گی۔ پندرھویں صدی کے فرانس میں ایک انیس سالہ خوبرو لڑکی کا جنگی محاذ پر جانا اور مٹی کا قرض اتارنے کے جذبے سے لیس فوج کے جنگی دستے کی کمانڈ سمبھالنے کی آرزو بالکل ایک انہونی اور ناقابل یقین بات تھی۔ مگر چونکہ اس دہقان داذی کے جذبے سچے اور صادق تھے بادشاہ نے اسے جنگی دستے کی کمانڈر بنا کر اپنے وطن کا پرچم اس کے ہاتھ میں تھمایا اور فتح کی دعا کے ساتھ اسے محاذ پر روانہ کر دیا۔

فرانس کی سو سالہ جنگی تاریخ میں جًون آف آرک نے بہت سارے محاذوں پر سپہ سالار کے طور پر فتوحات حاصل کیں۔ یہ اس کی شجاعت اور بہادری کا صدقہ تھا کہ چارلس ہفتم کو فرانس کا تخت و تاج نصیب ہوا۔ شومئی قسمت کہ ایک معرکے کے دوران جًون آف آرک کو دشمن افواج نے محصور کر کے گرفتار کر لیا۔ انگریز سرکا ر کے زیر اثر چرچ نے اس پر مقدمہ چلایا اور اس پر باغی ، گمراہ اور ملحد ہونے کے الزامات لگائے گئے۔ اور پھر جیسا کہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے اس وقت کی عدلیہ کے منصفوں نے اسے فا حشہ ، باغی ، محلد اور بھٹکی ہوئی روح قرار دے کر زندہ جلانے کا حکم نامہ سنا دیا۔ اور فرانس کی وہ دوشیزاہ محض انیس سال کی عمر میں نا کردہ گناہوں کی پاداش میں ایک مصروف چوراہے کے بیچ ٹکٹکی پر باندھ کر زندہ جلا دی گئی۔ پادری منصفوں کی قربان گاہ کی بھینٹ چڑھنے کے ۲۵ سا ل بعد اس کا مقدمہ دبارہ کھو لا گیا ازسر نو تفتیش ہوئی ، مختلف صاحب رائے افراد نے دونوں طرف سے دلائل دیئے ، شہادتیں پیش کی گئیں اور بالاخر پوپ کالیکسٹس سوئم نے جًون آف آرک کو معصوم، ولی اور شہید قرار دے دیا۔ جًون آف آرک فرانس کے اجتماعی، تاریخی شعور کے سامنے ہمیشہ سے ایک بہت بڑا سوالیہ نشان بن کر زندہ رہی۔ ماہ و سال ، عشرے اور صدیا ں بیتتی گئیں یہاں تک کہ انیس سو بیس آگیا اور رومن کیتھو لک چرچ نے فرانس کے ماضی پر لگا یہ بد نما داغ دھونے کا فیصلہ کیا اور اسی باغی ، ملحد جًون آف آرک کو راہب کامل کا خطاب دے دیا گیا۔

تاریخ کی ستم ظریفی دیکھے کہ مشرقی فرانس کے ایک دیہات کی باغی لڑکی جسے اس قت کے صاحبان محراب و ممبر نے زندگی کی بیسویں بہار دیکھنا نصیب نہ ہونے دیاور چھ سو سال کے بعد وہی جبہ و دستار کے مالک مذہبی پنڈت اجتماعی تاریخی شعور کے ہاتھوں مجبو ر ہو کر اسے وقت کی ولی کامل، صوفی اور متبرک روح کا خطاب دینے پر مجبور ہو گئے۔

تاریخ کے ہاتھوں امر ہونے والی یہ لڑکی مجھے ملالہ جیسی لگتی ہے۔ملالہ کو بھی پندرھویں صدی کے مفلس ذہن کی بدبو دار منطق کا سامنا ہے۔ جن کے نزدیک باحیا ملالہ کی معصو م جستجو ئے علم ایک ناقابل معافی جرم ہے۔ وہ لڑکی ہو کر اپنا حق مانگتی ہے۔ اور نا جانے کس پاکیزہ لمحے اس نے باب شہر علم کا یہ فرمان اپنے دل کے نہاں خانے میں محفو ظ کر لیا۔ فرمایا: بولو ، تاکہ پہچا نے جاؤ: علم کی جستجو کا بے خوف اظہار اس کی پہچان بنا تو شب تاریک کی اولاد اس کی جان کے درپے ہو گئی اور بالاخر اسے فتنہ قرار دے کر قتل کا فتوی صادر کر دیا گیا۔ جان لیوا احکامات کی پیروی کرنے والے مومن مجاہد اسے سکول کی بس میں سے اپنی سہلیوں کے درمیان سے پہچاننے کے بعد اس کے دماغ پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں۔ ملالہ کے پیکر میں سب سے خوبصورت اور خطرناک چیز اسکا ذہن تھا، اس کی فکر تھی، اس کے خواب تھے، زمین کے ساتھ اس کی محبت تھی، وہ بہادری کی علامت اور امید کا استعارہ بن رہی تھی۔ اس کے لفظ سات سمندر پار تک منجمد پانیوں میں ارتعاش کا سبب بن رہے تھے، وہ مجسم خطرہ تھی، اس کا زندہ رہنا خطرناک نذیر قائم کر سکتا تھا لہذا اس پر قاتلانہ حملہ جائز ٹھہرا اور وہ ہنستی کھیلتی ملالہ اب زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا معالجوں کے زیر نگرانی سانسیں لے رہی ہے۔

ملالہ تیرے ہم وطن عجیب لوگ ہیں ، بلکہ بہت عجیب۔ ابھی انہوں نے کافی کچھ طے کرنا ہے۔ جمہوریت اور آمریت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے۔ ابھی دشمن اور دوست کی تعریف پر اتفاق نہیں ہوا۔ ابھی ہر کام میں سازش کی بو آتی ہے۔ ابھی ہما رے مستقبل کے خدوخال دھندلے ہیں۔ ابھی لفظ سیکو لر کے معنی پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔ ابھی لڑکیوں کے تعلیم حاصل کرنے کی منطق حل طلب ہے، ابھی اس سلطنت کے رواجوں میں عورت کی گواہی ادھوری ہے ، ابھی جہاد اور امریکی جنگ کے درمیان حائل خلیج پاٹنی ہے، ابھی فوجی اور غیر فوجی ادوار اور ان کے کارناموں کی حتمی فہرست تیار نہیں ہوئی۔ ابھی آئین سے غیر اسلامی شقیں خارج نہیں ہوئیں۔ ابھی اسمبلیاں غیر پارسا لوگوں کی اماج گاہ ہیں۔ ابھی عدالتیں کفر کے نظام کے تحت اسلامی قوانین کی تشریح کر رہی ہیں، ابھی ہندوستان کے لال قلعہ پر اسلامی جھنڈا لہرانا ہے۔ ابھی امر یکہ کے ساتھ ایک فیصلہ کن جنگ باقی ہے۔ ابھی یہود و ہنود کی سازشوں کے پردے بے نقاب ہونے ہیں، ابھی کالم نگاروں اور تجزیہ کاروں کا طرز استدلال حوس لقمہ تر کے زیر اثرہے۔ ابھی ڈرون حملے جاری ہیں، ابھی ملا عمر اور حکیم اللہ محسود کی عمل داری سارے پاکستان تک نہیں پھیلی۔ ابھی خلافت کا نظام رائج نہیں ہوا۔ ابھی تمہاری تعلیم کے مقابلے میں عالمی استعمار کے خلاف جنگ زیادہ اہم ہے۔

 ہم وحشتوں کے خریدار ہیں، روشنی ہمیں خیرہ کر دیتی ہے۔ ابھی تم کچھ دیر صبر کرو ،زمین ابھی بنجر ہے، ابھی تم شعور، آگاہی اور آذادی کے بیج اپنے ہاتھ میں تھامے رکھو ، ذرا دریا کو اپنا راستہ بدلنے دو، ذرا شبٍ تاریک کے سائے کو ڈھلنے دو ۔

اس شہر میں خواب مت دیکھو!
اس شہر میں پیار مت سوچو!
اور بھلا چاہو تو یہ آنکھیں
فصیلٍ شہر سے باہر گڑی
کھونٹی پہ لٹکا دو!
نئے فرمان میں یہ دوو ٹوک لکھا ہے
کہ آنے والے موسموں کے ضمن میں
فصل گل کی خواہش سے
بصارت مستور کی بے پردگی کا خدشہ ہے
اس شہر میں خواب مت دیکھو!
اس شہر میں پیار مت سوچو!
کہ کوتوالٍ شہر کے کھوجی تمہارے خواب کے رستے
تمہاری آنکھ تک جو پہنچے
تو بمعہ تعبیر رنگے ہاتھوں
تمہیں وہیں محصور کر لیں گے
میری جاں!
اس شہر میں خواب مت دیکھو!
اس شہر میں پیار مت سوچو!

خالق کائنات ملالہ کا مقد مہ تیری بارگاہ میں ہے اسے زندگی کی نعمت سے سرفراز رکھ اور امت شاہ لولاک پر اپنا کرم فرما جو تیرے نام پر تیرے نام لیواؤں کے خون کو باعث افتخار سمجھتے ہیں اور نہیں شرماتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment