Monday, November 19, 2012

My article on blasphemy

آ گے بڑھو مسا فر و

طارق بھٹی

زندگی ہمیشہ تلا طم خیز ندی کی طرح بہاؤ میں ر ہتی ہے۔ وطن عزیز کا سیاسی تالاب بھی ہمیشہ متلاطم لہروں کی زد میں رہتا ہے۔ لیکن بات اگر صرف سیاست تک محدود ہو تو اسے ایک صحت مند اشا ر یہ سمجھ لیا جائے۔ پشیما نی اس وقت لا حق ہوتی ہے جب ہم اپنی معاشرت کا شیرازہ بکھر تا دیکھتے ہیں۔ دکھ کے گھا ؤ اس وقت محسوس ہوتے ہیں جب سماج کا تناور درخت فکری دیمک کی ذد میں نظر آ تا ہے۔ شعو
ر کیْ سولیں اس وقت بْبول بن کر چھبنے لگتی ہیں جب راہبر و راہذن کا فرق با لکل دھندلا جا تا ہے۔ معا شرتی تالاب اْس وقت متعفن ہونے لگتا ہے جب اختلا ف رائے گالی کا ہم معنی بن جا ئے اور وسیع المشر بیت کو دیس نکالا مل جا ئے ۔
سچ پر کھوکھلی اجارہ داری کا دعوی کرنے والوں کو جب یہ بات سمجھ نہ آئے کہ حیات اپنی تخلیق کے اولین مدارج سے آج تک تنو ع اور رنگا رنگی کے سبب ہی خو بصورت رہی ہے تو دم گھٹنے لگتا ہے۔ کو ئی کیسے بتلائے کہ یک رنگی فطرت کے اصولوں کی نفی ہے۔ اسی لئے تو تتلیاں، جگنو، کبوتر، کو نپلیں، پھول، پتیاں، درخت، سبزہ، دھوپ، ندی، جنگل، بیلے، صحرا، بہار اور پت جھڑ سب جدا جدا رنگ لے کر ہستی کے نگار خانے کو مذین کئے ہوئے ہیں۔
کیا اس بات سے انکار ممکن ہے کہ مطلق سچا ئی کی کھوج میں آدم زاد بے شمار فکری پڑاؤ عبور کر چکا ۔ اور کا ئنات ہنوز ایک پر اسرار بوڑھیا کی مانند دور کسی جزیرے میں خیمہ زن ہے۔ عقائد ، نظریات اور افکارکے ریتلے نقش بے یقینی، تجسس اور واہموں کی ہواؤں سے بنتے بگڑتے رہے ہیں۔ زما نہ ، آگے بڑھو مسافرو کی صدا لگاتا ہمیشہ سے بہتا آیاہے۔ زمین کی گود کو رنگوں سے محروم کرنے والے سبھی قافلے ابدیت کی کائی نے بانجھ کر دےئے۔ منزل پر صرف وہی کاروان پہنچتے ہیں جو یہ جانتے ہوں کہ راستہ صرف آگے کو ہے۔ دیو مالائی داستانوں میں پیچھے مڑ کر دیکھنے والے کردار پتھر ہو جاتے ہیں بالکل اسی طرح جب کسی معاشرے کی اجتماعی آنکھیں پیشانی کی بجائے پشت پر پیوست کر دی جائیں تو آگے کا سفر دراصل پیچھے کا راستہ بن جاتا ہے اور ایسے میں شاعر صدا لگاتا ہے:
ہمارے پاؤں الٹے تھے، فقط چلنے سے کیا ہوتا
بہت آگے گئے لیکن، بہت پیچھے نکل آئے

اس پس منظر میں پا کستان کے عقل کل ، پست قداور بلند آھنگ ، تنخواہ دار دانشوروں سے اپیل ہے کہ تاریخ کی جدلیات سے طالب علمانہ وابستگی کو اپنا شعاربنائیں اور وہ فکری مغالطے جو کسی قافلے کو منزل پر پہنچانے کی راہ میں رکاوٹ ہوں انہیں اپنے افکار سے نکال باہر کریں۔ کیا یہ ایک حقیقت نہیں کہ یہ زمین چھ ارب ۸۰ کروڑ انسانوں کا مسکن ہے اور اس کے مکین سینکڑوں مختلف مذہبی اور فلسفیانہ عقائد سے وابستہ ہیں۔ دنیا کی کل آبادی کا تیتیس فی صد یعنی ۲ ارب ایک کروڑ افراد عیسا ئیت کے پیروکار ہیں۔ اور ۲۱ فی صد یعنی ایک ارب پانچ کروڑ مذہب اسلام کے ماننے والے ہیں۔ جبکہ ایک تحقیق کے مطابق ایک ارب افراد ایسے ہیں جو کسی بھی مذہب کے ساتھ فکری وابستگی کا دعوی نہیں کرتے اور یہ کل آبادی کا ۱۵ فی صد ہیں۔ ۹۰ کروڑ افراد ہندومت کے پیروکار ہیں۔ ۳۰ کروڑ چھہتر لاکھ بدھ مت کو اپنا روحانی عقیدہ گردانتے ہیں جبکہ ۳۰ کروڑچھ لاکھ افراد روحانیت کو ہی اپنا مذہب قرار دیتے ہیں۔ افریقہ کے مختلف قبائل جن کی تعداد ۱۰ کروڑ اور ۱۰ لاکھ کے قریب ہے مختلف مذہبی روایات کے تحت زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ایک کروڑ پینتالیس لاکھ خود کو سیکولر کہلوانا پسند کرتے ہیں۔ ایک کروڑبارہ لاکھ یہودیت کے ماننے والے ہیں۔ بیتالیس لاکھ جین مت مذہب سے جڑے ہوئے ہیں۔ پچیس لاکھ زرتشتی، چالیس لاکھ شنتو مذہب کے پیروکار جبکہ چالیس کروڑکیمونسٹ چینی با شندے اس کے علاوہ ہیں۔
کیا اتنے مختلف العقائد اربوں افراد اختلاف رائے کا شکار نہیں ہوں گے۔ کیا اسی تنوع سے انسانی تہذیب و تمدن کو جلا نہیں ملی؟
کیا اس باغیچے کے سبھی پھولوں کو یک رنگ کر دیا جائے۔ کیا صوفیا اور اہل نظر ،یہ نہیں کہہ گئے کہ سچ کو ئی منزل نہیں، بلکہ صرف راستہ ہے۔ آگے بڑھو مسافرو کہ زمانہ بوڑھے فقیر کی صدا ہے جس کے نہ سننے والے ہنوط جسموں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ جن کی صرف سانسیں چلتی ہیں۔اور ضروری نہیں کہ زندگی کی رنگا رنگی بھی ان کی پلکوں پہ اترتی ہو۔ نفرت کا بیج بو کر الفت کی فصل کے انتظار میں بیٹھنے والے کسی منزل کے نامہ بر نہیں ہو سکتے۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے پالیسی ساز ہماری معاشرت میں تنگ نظری، تشدد ، عدم برداشت ا ور مذہبی جنونیت کو دوام بخشنے کی بجائے محسن انسانیت کے کردار کی بات کریں۔ یہ تیرگی چھٹے گی تو جلاؤ اور گھیراؤ سے نہیں اْس مصور کے حسین شاہکار ﷺ کی باتیں کرنے سے چھٹے گی۔

ْتنک مزاجوں،
لباس نا آشنا رواجوں کی سلطنت میں
وہ صاحب جامہ و ردا تھا
وہ نرم لہجے میں بولتا تھا

ہذیان بکنے والوں سے انتقام لینے کے لئے حواس کھو دینا کہاں کی دانش مندی ہے اور آسمان پر تھوکنے والا اگر یہ سمجھے کہ تھوک واپس اس کے منہ پر نہیں گرے گی تو ایسے شخص پر صرف ترس ہی کھایا جا سکتا ہے۔نیم خواندہ پیش امام جن کی وسعت نظر حجرہ کی دیوار تک بھی نہیں ،وہ اقبال کے اس تصور کی کیا آبیاری کریں گے جو یہ کہتا ہے کہ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔
تا ہم مختلف مذاہب اور عقائد کے ما بین صحت مند فکری مکالمے کو حق اور باطل کی رزم گاہ سمجھنے کی بجائے اسے انسانی تمدن کی ترقی کا ایک اہم ذریعہ سمجھا جانا چاہئے۔ اور آذادی اظہار کے منہ زور گھوڑے کو بقائے باہمی کے زریں اصولوں کے تابع کیا جانا چاہئے کیونکہ چھڑی گھمانے والے کی آذادی کسی دوسرے کی ناک تک پہنچنے سے پہلے ختم ہوجاتی ہے۔ بصورت دیگرکْشت و خون کی ہولی ہزراروں سالوں کے اجتماعی تہذیبی ورثے کو تاراج کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگائے گی۔۔

No comments:

Post a Comment