Saturday, November 24, 2012

My article on Bhagat Singh


بھگت سنگھ چوک


طارق بھٹی



گذشتہ کچھ دنوں سے ہمارے ہاں ایک بحث چل رہی ہے اور حب الوطنی پر اجارہ داری کا دعوی کرنے والے دانشور یہ طے نہیں کر پا رہے کہ ۲۸ ستمبر ۱۹۰۷کو پنجاب کی ایک تحصیل جڑانوالہ کے چک نمبر ۱۰۵ میں کِشن سنگھ کے گھر پیدا ہونے والا ایک انقلابی جو اپنے وطن کو غلامی کی زنجیروں سے آذاد کروانے کی جدوجہد میں دیوانہ وار لڑتا رہا ، قیدو بند کی صعو بتیں جھیلتا رہا، انگریز سرکار کے قید خانوں میں 
مشقت کاٹتارہا اسے پہچا نا جائے یا آنکھیں موند لی جائیں۔ایک ایسا انقلابی جس نے اپنے وطن کی آذادی کے لئے قید میں ہوتے ہوئے بھی ایک سو سولہ دن کی بھوک ہڑتال کی۔ اور برصغیر کی سیاسی جدوجہد کی تاریخ میں جس کا نام سنہرے حروف سے لکھا گیا ۔فکری مغا لطوں کے پرو رد ہ د انشور مخمصے میں ہیں کہ مٹی سے محبت کا جرم کرنے والے اس انقلابی پر فخر کیا جائے یا اسے اپنا ماننے سے انکار کر دیا جائے۔ بھگت سنگھ بر صغیر کی ا نقلابی تاریخ کا ایک انو کھا کردار ہے جو وطن کی آذادی کے لئے لڑتے لڑتے محض ۲۳ سال کی عمر میں پھانسی پر جھول گیا اور اس کے ہم وطن اپنے قابلِ فخر سپوت کو اسکی ناگہانی موت کے ۸۲ سال بعد بھی اپنا بیٹا ماننے سے انکاری ہیں۔ سعادت حسن منٹو کا شہرہ آفاق افسانہ ’’ ٹوبہ ٹیک سنگھ ‘‘ برصغیر کی تاریخ کے اسی جبر کا نوحہ ہے۔

حال ہی میں لاہور کے شادمان چوک کو بھگت سنگھ کے نام سے منسوب کیے جانے پر ایک خاص حلقے میں اضطراب اور بے چینی کی ناقا بلِ فہم لہر دوڑ گئی ہے اور وہ لائل پور کی تحصیل جڑانوالہ کے ایک گاؤں میں پیدا ہونے والے جدوجہد آذادی کے اس عظیم ہیرو کو یہ عزت دینے کے لئے موزوں نہیں سمجھ رہے بلکہ یہاں تک کہ اسے آئین پاکستان پر حملے کے مترادف قرار دیتے ہیں۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ بھگت سنگھ ہمارا یعنی مسلمانوں کا ہیرو نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ سِکھ تھا، غیر مذہب تھا، اس لئے انگریز سرکار سے آذادی حاصل کرنے کے لئے دی گئی زندگی کی قربانی ھمارے لئے قابلِ ستائش نہیں۔

سوال یہ ہے کہ آپ کس بنیاد پر یہ دعوی کرتے ہیں کہ بھگت سنگھ سکھ مذہب کا پیروکار تھا وہ تو خالصتاً انسانی قدروں پر یقین رکھنے والا ایک انقلابی سرخیل تھا۔ اس نے خود اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ میرا کسی بھی دھرم سے کوئی تعلق نہیں میں محض انسانیت کو ہی اپنا مذہب سمجھتا ہوں۔ وہ مارکس ، لینن اور اینگلز کے علاوہ آئر لینڈ کے انقلابی مصنفین کے خیالات سے متاثر تھا۔ محضِ سکھ گھرانے میں پیدا ہونے سے بھگت سنگھ سکھ نہیں بن جاتا۔اس نے شعوری طور پر مذہب کی بنیاد پر اپنی شناخت کو اپنی زندگی میں ہی رد کر دیا تھا۔ لہذا مذہبی درجہ بندی کی بنیاد پر اسے دیس نکالا دینا تاریخی طور پر درست نہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ شناخت کا سب سے قدیم حوالہ مذہب نہیں زبان اور جغرافیہ ہوا کرتا ہے۔ کسی ایک خطے میں بسنے والے اور ایک زبان بولنے والے مختلف العقائد افراد اسی کو ہی اپنا وطن قرار دینے کا حق رکھتے ہیں۔ اگر بھگت سنگھ پنجاب کا سپوت نہیں تو پھر سر گنگا رام اور دیال سنگھ کالج کے بانی کو بھی لاہور کی تاریخ سے حذف کیا جائے۔ اور سائمن کمیشن کی مخالفت کرنے والے لالہ لاجپت رائے کو بھی کسی دوسرے دیس میں منتقل کرنے کی تاریخی کو شش کی جائے۔ اور اگر ہو سکے تو گلاب دیوی ہسپتال کو بھی مریض اور معالجوں سمیت لاہور سے نکال باہر کیا جائے۔ اس سے بڑی ذہنی اور فکری مفلسی اور کیا ہو گی کہ ہم اپنے ہی قابلِ فخر بچوں کو اپنا ماننے کے لئے تیار نہیں۔ کبھی دھرم کے نام پر اور کبھی فرقے کے نام پر ۔ کبھی بھگت سنگھ اور کبھی ڈاکٹر عبدالسلام۔

بھگت سنگھ کی مخالفت میں فکری کلابازیاں لگانے والوں میں سے کتنوں کو معلوم ہے کہ یہ وہی بھگت سنگھ ہے جس کی سیاسی جدوجہد کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناح نے ۱۲ ستمبر ۱۹۲۹ کو مرکزی قانون ساز اسمبلی میں اپنی تقریر میں کہا ’’جو شخص بھوک ہڑتال کرتا ہے وہ اپنے مقصد اور نظریے کی سچائی پر ایمان رکھتا ہے۔ اخلاقی بلندی کے بغیر کوئی شخص بھوک ہڑتال نہیں کر سکتا اس کا احتجاج انصاف کے اس نا قص نظام کے خلاف ہے۔ ‘‘ قائد اعظم نے اسمبلی کے اندر اور باہر بھگت سنگھ اور ساتھی قیدیوں کے ساتھ لاہور جیل میں روا رکھے جانے والے وحشیانہ سلوک کے خلاف آواز بلند کی۔ اور ان کے ساتھ بہتر سلوک کا مطالبہ کیا۔ ۱۹۲۹ کا وہ آرڈنینس جس کے تحت بھگت سنگھ اور جدوجہد آذادی کے دیگر راہنماؤ ں پر مقدمات چلائے گئے، قائد اعظم کی طرف سے اس کی قانونی حیثیت پر کی گئی تنقید تاریخ کا حصہ ہے۔

بھگت سنگھ بر صغیر کی آذادی کی جدو جہد میں جراّت و ہمت کا استعارہ تھا۔ آذادی کا خواب آنکھوں میں سجانے والے سبھی جانباز اس کی دیو مالائی بہادری اوروطن سے والہانہ محبت کی بدولت اس کی زندگی سے اپنے آذادی کے جذبوں کومہمیز کرتے تھے۔ لاہور سازش کیس کے دوران اس کی تقاریر اور نظریات نے برصغیر کے نوجوانوں میں انقلابی روح پھونکنے میں اہم کردار ادا کیا۔ بھگت سنگھ سکھ، مسلم یا ہندو نہیں تھا وہ ایک انقلابی تھا۔ اسکا کوئی دھرم نہیں تھا وہ انسانی عظمت اور برابری کی جنگ لڑ رہا تھا۔ اسکا اور کوئی ایجنڈا نہیں تھا وہ تو بس خود رو پودے کی طرح اگا اور غلام باغ کی سبھی شاخوں پر اپنا خوشبو رنگ لہو نچھاور کر کے تختہ دار پر چڑھ گیا۔سولیوں اور صلیبوں کوایسے ہی سورماؤں کی بدولت عظمت نصیب ہوتی ہے۔

بھگت سنگھ ایک عاشق اور انقلابی تھا اس نے اپنے آخری خط میں لکھا ’’عاشق، شاعر اور پاگل ایک ہی مٹی کے بنے ہوتے ہیں ‘‘ ۔’’ میں ایک جنگ میں لڑتے ہوئے گرفتار ہواہوں، پھانسی کا تختہ میری منزل نہیں ہو سکتا مجھے توپ کی نالی میں ڈال کر اڑا دیا جانا چاہے‘‘ ۔
زنداں میں بھی شورش نہ گئی اپنے جنوں کی
اب سنگ مداوا ہے اس آشفتہ سری کا
وہ ایک جفاکش ، محنتی ، باشعور اور بہادر انقلابی تھا جس نے کھلے میدانوں میں دشمن کا مقابلہ کیا۔ وہ ایک ایسی چنگاری تھا جوبہت جلد شعلہ بن کے سارے دیس کی تاریکی کو روشنی میں تبدیل کر گیا۔

۲۳ مارچ ۱۹۳۱ کی اداس شام انگریز سامراج کے نظامِ عدل کے اعزازی مجسٹریٹ نواب محمد احمد خان قصوری نے بھگت سنگھ کی پھانسی کے پروانے پر دستخط کیے (بھٹو صاحب کی پھانسی بھی اسی قصوری خاندان کے سبب ہوئی مگر اسے محض ایک اتفاق ہی سمجھا جائے)

انگریز سرکا ر کے نظام عدل کے تابع اس وقت کی عدالتوں نے بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کو صفائی کا موقع دےئے بغیر پھانسی کے گھاٹ اتار دیا۔ یہاں تک کہ ان کے گھر والوں کو بھی ان سے نہیں ملنے دیا گیا۔ قیدیوں سے ان کی آخری خواہش تک نہیں پوچھی گئی، انہیں کسی بھی مذہب کے تحت تجہیزو تکفین تک کی اجازت نہیں دی گئی۔ لاہور جیل کی عقبی دیوار توڑ کر بھگت سنگھ کی لاش کو باہر نکالا گیا اور بہیمانہ درندگی کے ساتھ اس کی لاش کے ٹکڑے کر کے مٹی کے تیل میں ڈال کر جلا دیا گیا۔
انگریز سامراج اس انقلابی کی لاش سے بھی خو فزدہ تھا۔ اس وقت کے وائسرائے ہند لارڈ اِرون نے برطانوی وزیر اعظم رمزے میکڈونلڈ کے کہنے پر پنجاب کے اس سورمے کی راکھ کو بھی دریائے ستلج کے پانیوں میں بہا دیا۔

No comments:

Post a Comment